ہر ایک شخص کو اک طنطنے میں رکھتی ہے
وہ بھانت بھانت کی مچھلی گھڑے میں رکھتی ہے
تمام شہر کے دانشوروں کو وہ ظالم
اسیر زلف کیے آسرے میں رکھتی ہے
وہ گالیاں بھی اگر دے تو شعر و نغمہ لگے
زباں میں لوچ عجب سر گلے میں رکھتی ہے
اسے شراب طہوریٰ کا تذکرہ بھی گناہ
یہ بات اور ہے سب کو نشے میں رکھتی ہے
ہر اک کو درد کی لذت سے آشنا کر کے
مزے میں رہتی ہے سب کو مزے میں رکھتی ہے
سمجھ کے حق وہ ہر احسان بھول جاتی ہے
مگر ہر ایک خطا حافظے میں رکھتی ہے
اسے خبر ہے کہ انجام وصل کیا ہوگا
وہ قربتوں کی تپش فاصلے میں رکھتی ہے
سکوں کے سائے میں شاید اسے بھلا بیٹھے
مدام شہر کو اک زلزلے میں رکھتی ہے
غزل
ہر ایک شخص کو اک طنطنے میں رکھتی ہے
خالد یوسف