ہر ایک شخص خفا مجھ سے انجمن میں تھا
کہ میرے لب پہ وہی تھا جو میرے من میں تھا
کسک اٹھی تھی کچھ ایسی کہ چیخ چیخ پڑوں
رہا میں چپ ہی کہ بہروں کی انجمن میں تھا
الجھ کے رہ گئی جامے کی دل کشی میں نظر
اسے کسی نے نہ دیکھا جو پیرہن میں تھا
کبھی میں دشت میں آوارہ اک بگولا سا
کبھی میں نکہت گل کی طرح چمن میں تھا
میں اس کو قتل نہ کرتا تو خودکشی کرتا
وہ اک حریف کی صورت مرے بدن میں تھا
اسی کو میرے شب و روز پر محیط نہ کر
وہ ایک لمحۂ کمزور جو گہن میں تھا
مری صدا بھی نہ مجھ کو سنائی دی صابرؔ
کچھ ایسا شور بپا صحن انجمن میں تھا
غزل
ہر ایک شخص خفا مجھ سے انجمن میں تھا
نوبہار صابر