ہر ایک شام کا منظر دھواں اگلنے لگا
وہ دیکھو دور کہیں آسماں پگھلنے لگا
تو کیا ہوا جو میسر کوئی لباس نہیں
پہن کے دھوپ میں اپنے بدن پہ چلنے لگا
میں پچھلی رات تو بے چین ہو گیا اتنا
کہ اس کے بعد یہ دل خود بہ خود بہلنے لگا
عجیب خواب تھے شیشے کی کرچیوں کی طرح
جب ان کو دیکھا تو آنکھوں سے خوں نکلنے لگا
بنا کے دائرہ یادیں سمٹ کے بیٹھ گئیں
بوقت شام جو دل کا الاؤ جلنے لگا

غزل
ہر ایک شام کا منظر دھواں اگلنے لگا
امیر امام