EN हिंदी
ہر ایک شام کا منظر دھواں اگلنے لگا | شیح شیری
har ek sham ka manzar dhuan ugalne laga

غزل

ہر ایک شام کا منظر دھواں اگلنے لگا

امیر امام

;

ہر ایک شام کا منظر دھواں اگلنے لگا
وہ دیکھو دور کہیں آسماں پگھلنے لگا

تو کیا ہوا جو میسر کوئی لباس نہیں
پہن کے دھوپ میں اپنے بدن پہ چلنے لگا

میں پچھلی رات تو بے چین ہو گیا اتنا
کہ اس کے بعد یہ دل خود بہ خود بہلنے لگا

عجیب خواب تھے شیشے کی کرچیوں کی طرح
جب ان کو دیکھا تو آنکھوں سے خوں نکلنے لگا

بنا کے دائرہ یادیں سمٹ کے بیٹھ گئیں
بوقت شام جو دل کا الاؤ جلنے لگا