ہر ایک سمت اشارے تھے اور رستہ بھی
ملال یہ ہے کہ آیا نہ ہم کو چلنا بھی
ہماری پیاس مکمل ہو تو قدم بھی اٹھیں
رکھے ہیں سامنے دریا بھی اور صحرا بھی
بجھے چراغ تو حیرانیاں کچھ اور بڑھیں
ہمارے ساتھ ہے اب تک ہمارا سایا بھی
اک ایسی لہر اٹھی ڈوبنے کا خوف اٹھا
اب ایک جیسے ہیں منجدھار بھی کنارہ بھی
سفر سے لوٹ تو آیا مگر نہ تھا معلوم
ہمارے ساتھ چلا آئے گا یہ رستہ بھی
غزل
ہر ایک سمت اشارے تھے اور رستہ بھی
سنیل آفتاب