ہر ایک سانس میں کچھ درد درد لگتا ہے
مرا وجود ہی اب گرد گرد لگتا ہے
تمہارے قرب میں گرمی بہت غضب کی تھی
ہوا کا ہاتھ مگر سرد سرد لگتا ہے
نہ جانے آئی کہاں سے بھکاریوں کی یہ بھیڑ
گداگر آج مجھے فرد فرد لگتا ہے
اسی میں دیکھی تھی تصویر کائنات کبھی
وہ آئینہ کہ جو اب گرد گرد لگتا ہے
وہ ایک ہم تھے کہ سمجھا حریف کو بھی حلیف
فریب کار تمہیں فرد فرد لگتا ہے
کسی کے ہونٹوں کی سرخی کو کیا ہوا ہے راجؔ
غزل کا چہرہ بھی کچھ زرد زرد لگتا ہے

غزل
ہر ایک سانس میں کچھ درد درد لگتا ہے
راج کھیتی