EN हिंदी
ہر ایک رخ سے مجھے لطف جستجو آئے | شیح شیری
har ek ruKH se mujhe lutf-e-justuju aae

غزل

ہر ایک رخ سے مجھے لطف جستجو آئے

اشرف رفیع

;

ہر ایک رخ سے مجھے لطف جستجو آئے
ذرا وہ اور قریب رگ گلو آئے

مآل ناز خودی کیا ہے یہ تو سمجھا دوں
جسے ہو ناز خودی میرے روبرو آئے

بغیر اذن ہی ساقی نے کر لیا قبضہ
ہمارے واسطے جب ساغر و سبو آئے

قدم قدم پہ ہے خوددارئ حیات کا ڈر
مری زبان پہ کیا حرف آرزو آئے

تری فضائے محبت ہو خوش گوار اتنی
نفس نفس سے خلوص و وفا کی بو آئے

ہمارے دل میں عداوت رہے گی کیا اشرفؔ
نظر جھکائے ہوئے جب کوئی عدو آئے