EN हिंदी
ہر ایک رات میں اپنا حساب کر کے مجھے | شیح شیری
har ek raat mein apna hisab kar ke mujhe

غزل

ہر ایک رات میں اپنا حساب کر کے مجھے

بھارت بھوشن پنت

;

ہر ایک رات میں اپنا حساب کر کے مجھے
سحر کو چھوڑ دیا آفتاب کر کے مجھے

مرے جنون کو پہنچا دیا ہے منزل تک
سفر کے شوق نے خانہ خراب کر کے مجھے

ذرا سی دیر میں وہ بلبلے بھی پھوٹ گئے
جنہیں وجود ملا غرق آب کر کے مجھے

اسی کو دن کے اجالے میں آؤں گا میں نظر
تمام رات جو دیکھے گا خواب کر کے مجھے

جگہ جگہ پہ مڑے ہیں کئی ورق میرے
کسی نے روز پڑھا تھا کتاب کر کے مجھے

بنا رہا ہے اگر تو مجھے تو دھیان رہے
تجھے بنانا پڑے گا خراب کر کے مجھے

میں اک نشہ ہوں اسے پڑ گئی ہے لت میری
حیات پینے لگی ہے شراب کر کے مجھے

مری شناخت ہے اہل سخن میں بس اتنی
کیا گیا ہے الگ انتخاب کر کے مجھے