ہر ایک راہ میں امکان حادثہ ہے ابھی
کہ کھو نہ جاؤں اندھیرے میں سوچنا ہے ابھی
تمام عمر وہ چلتا رہا ہے صحرا میں
گھنے درخت کے سائے میں جو کھڑا ہے ابھی
سکون تیرے تصور سے جس کو ملتا ہے
وہ تیری دید کو لیکن تڑپ رہا ہے ابھی
ہر ایک شخص کے چہرے پہ خوف طاری ہے
نہ جانے کون اندھیرے میں چیختا ہے ابھی
وہ کھو گیا ہے کہیں بھیڑ میں تو کیا کیجئے
جو دکھ ہے اس کے نہ ملنے کا وہ جدا ہے ابھی
ٹھہر گئے ہو سر راہ کس لئے آخر
چلے بھی جاؤ کہ کوئی بلا رہا ہے ابھی
دریچہ کھول کے نیرؔ نہ دیکھیے باہر
لہولہان مناظر کا سلسلہ ہے ابھی

غزل
ہر ایک راہ میں امکان حادثہ ہے ابھی
اظہر نیر