ہر ایک لمحۂ غم بحر بیکراں کی طرح
کسی کا دھیان ہے ایسے میں بادباں کی طرح
نسیم صبح یہ کہتی ہے کتنی حسرت سے
کوئی تو باغ میں مل جائے باغباں کی طرح
ہے وہ تپش ترے پلکوں کے شامیانے میں
کہ اب تو دھوپ بھی لگتی ہے سائباں کی طرح
ہر ایک موڑ پہ ملتے ہیں ہم خیال مگر
کہیں تو کوئی ملے مجھ کو ہم زباں کی طرح
فریب چشم ہے یارو کہ اک حقیقت ہے
سماں جو شہر کا ہے شہر کے سماں کی طرح
ہوائے زیست کو آنا ہے جب تک آئے گی
بہار بن کے کبھی تو کبھی خزاں کی طرح
ہر ایک لفظ نکلتا ہے مثل تیر نوا
زبان یار ہے ارشدؔ کسی کماں کی طرح
غزل
ہر ایک لمحۂ غم بحر بیکراں کی طرح
ارشد کمال