ہر ایک خلیہ کو آئینہ گھر بناتے ہوئے
بہت بٹا ہوں بدن معتبر بناتے ہوئے
میرے نزول میں سات آسماں کی گردش ہے
اتر رہا ہوں دلوں میں بھنور بناتے ہوئے
عدم کی رگ میں جو اک لہر ہے وہیں سے کہیں
گزر گیا ہوں سفر مختصر بناتے ہوئے
مری ہتھیلی پہ ٹھہرا ہے ارتقا کا بہاؤ
جہاں کی خاک سے اپنا کھنڈر بناتے ہوئے
کہ دو جہان کے اثبات میں نے پھونکے ہیں
تیرے صدف میں نفی کا گہر بناتے ہوئے
جگاؤں کس کے مناظر افق کی آنکھوں میں
کہ میں ہی خواب ہوا ہوں نظر بناتے ہوئے
ریاضؔ پھر سے بھٹکتا ہے جگنوؤں کی طرح
کسی کی رات میں دل کو شرر بناتے ہوئے

غزل
ہر ایک خلیہ کو آئینہ گھر بناتے ہوئے
ریاض لطیف