ہر ایک ہاتھ میں پتھر دکھائی دیتا ہے
یہ زخم گھر سے نکل کر دکھائی دیتا ہے
سنا ہے اب بھی مرے ہاتھ کی لکیروں میں
نجومیوں کو مقدر دکھائی دیتا ہے
اب انکسار بھی شامل ہے وضع میں اس کی
اسے بھی اب کوئی ہمسر دکھائی دیتا ہے
گرا نہ مجھ کو مرے خواب کی بلندی سے
یہاں سے مجھ کو مرا گھر دکھائی دیتا ہے
جہاں جہاں بھی ہے نہر فرات کا امکاں
وہیں یزید کا لشکر دکھائی دیتا ہے
خدا کے شہر میں پھر کوئی سنگسار ہوا
جسے بھی دیکھیے پتھر دکھائی دیتا ہے
امیرؔ کس کو بتاؤگے کون مانے گا
سراب ہے جو سمندر دکھائی دیتا ہے
غزل
ہر ایک ہاتھ میں پتھر دکھائی دیتا ہے
امیر قزلباش