ہر ایک در پہ سر کو ٹپکنے کے باوجود
کعبہ پہنچ گیا ہوں بھٹکنے کے باوجود
کیا کیجیئے کہ گرد طلب کی جمی رہی
دامان دل کو روز جھٹکنے کے باوجود
شاید کھلی ہے آپ کے آنے سے چاندنی
دھندلی سی لگ رہی تھی چھٹکنے کے باوجود
کیسا ہے یہ بہار کا موسم کہ باغ میں
ہنستی نہیں ہیں کلیاں چٹکنے کے باوجود
ہم بھی کتاب زیست کو پڑھتے چلے گئے
ایک ایک حرف غم پہ اٹکنے کے باوجود
اب کے جنوں میں عالم شوریدگی نہ پوچھ
قائم رہا ہے سر کو پٹکنے کے باوجود
راحت گزار دی ہے بڑی شان سے حیات
آنکھوں میں زندگی کی کھٹکنے کے باوجود

غزل
ہر ایک در پہ سر کو ٹپکنے کے باوجود
اوم کرشن راحت