EN हिंदी
ہر ایک بات پہ کیوں پیچ و تاب ہوتا ہے | شیح شیری
har ek baat pe kyun pech-o-tab hota hai

غزل

ہر ایک بات پہ کیوں پیچ و تاب ہوتا ہے

شانتی لال ملہوترہ

;

ہر ایک بات پہ کیوں پیچ و تاب ہوتا ہے
عزیزو جرم محبت عذاب ہوتا ہے

فراز بام پہ دیکھا ہے جب کبھی ان کو
نظر میں بیچ رخ ماہتاب ہوتا ہے

فقط یہ عشق و محبت کی ہم پہ آفت ہے
کہ جب بھی ہوتا ہے ہم پر عتاب ہوتا ہے

جہاں پہ ظلم و ستم حد سے اپنی بڑھتے ہیں
یقین مانو وہیں انقلاب ہوتا ہے

نہ انجمن میں ٹھکانہ نہ اپنے گھر میں کہیں
خراب بزم بھی خانہ خراب ہوتا ہے

سوال‌ اجر محبت پہ وہ بگڑ بیٹھا
عتاب کرتا ہے جب لا جواب ہوتا ہے

سنبھل کے بیٹھ ذرا دل کو تھام اے شاداںؔ
کسی کا حسن ابھی بے نقاب ہوتا ہے