ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
کہ ہم کو دست زمانہ سے زخم کاری لگے
اداسیاں ہوں مسلسل تو دل نہیں روتا
کبھی کبھی ہو تو یہ کیفیت بھی پیاری لگے
بظاہر ایک ہی شب ہے فراق یار مگر
کوئی گزارنے بیٹھے تو عمر ساری لگے
علاج اس دل درد آشنا کا کیا کیجے
کہ تیر بن کے جسے حرف غم گساری لگے
ہمارے پاس بھی بیٹھو بس اتنا چاہتے ہیں
ہمارے ساتھ طبیعت اگر تمہاری لگے
فرازؔ تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ
یہ کیا ضرور وہ صورت سبھی کو پیاری لگے
غزل
ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
احمد فراز