EN हिंदी
ہر ایک بات کو چپ چاپ کیوں سنا جائے | شیح شیری
har ek baat ko chup-chap kyun suna jae

غزل

ہر ایک بات کو چپ چاپ کیوں سنا جائے

ندا فاضلی

;

ہر ایک بات کو چپ چاپ کیوں سنا جائے
کبھی تو حوصلہ کر کے نہیں کہا جائے

تمہارا گھر بھی اسی شہر کے حصار میں ہے
لگی ہے آگ کہاں کیوں پتہ کیا جائے

جدا ہے ہیر سے رانجھا کئی زمانوں سے
نئے سرے سے کہانی کو پھر لکھا جائے

کہا گیا ہے ستاروں کو چھونا مشکل ہے
یہ کتنا سچ ہے کبھی تجربہ کیا جائے

کتابیں یوں تو بہت سی ہیں میرے بارے میں
کبھی اکیلے میں خود کو بھی پڑھ لیا جائے