EN हिंदी
ہر درد کے ہر غم کے طلب گار ہمیں ہیں | شیح شیری
har dard ke har gham ke talabgar hamin hain

غزل

ہر درد کے ہر غم کے طلب گار ہمیں ہیں

ممتاز میرزا

;

ہر درد کے ہر غم کے طلب گار ہمیں ہیں
اس جنس گرامی کے خریدار ہمیں ہیں

دنیا میں جفاؤں کے سزاوار ہمیں ہیں
ممتازؔ بہ ہر حال گناہ گار ہمیں ہیں

جو عشق میں گزری ہے سو گزری ہے ہمیں پر
آوارہ و رسوا سر بازار ہمیں ہیں

اب کون کرے روز نئی ان سے شکایت
اچھا چلو تسلیم جفا کار ہمیں ہیں

ممتازؔ جو نازاں ہیں بہت تشنہ لبی پر
کہہ دے کوئی ساقی سے وہ مے خوار ہمیں ہیں