ہر درد کے ہر غم کے طلب گار ہمیں ہیں
اس جنس گرامی کے خریدار ہمیں ہیں
دنیا میں جفاؤں کے سزاوار ہمیں ہیں
ممتازؔ بہ ہر حال گناہ گار ہمیں ہیں
جو عشق میں گزری ہے سو گزری ہے ہمیں پر
آوارہ و رسوا سر بازار ہمیں ہیں
اب کون کرے روز نئی ان سے شکایت
اچھا چلو تسلیم جفا کار ہمیں ہیں
ممتازؔ جو نازاں ہیں بہت تشنہ لبی پر
کہہ دے کوئی ساقی سے وہ مے خوار ہمیں ہیں
غزل
ہر درد کے ہر غم کے طلب گار ہمیں ہیں
ممتاز میرزا