ہر چند ترے غم کا سہارا بھی نہیں ہے
جینے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے
ہر روز کیے جاتی ہے یہ زیست تقاضے
کیا قرض تھا جو ہم نے اتارا بھی نہیں ہے
پہلے تو یہ موجیں بھی حمایت میں کھڑی تھیں
اب میرا مددگار کنارہ بھی نہیں ہے
جاتا بھی نہیں چھوڑ کے وہ مجھ کو اکیلا
اور ساتھ مرا اس کو گوارہ بھی نہیں ہے
کچھ اپنے مقدر کو بگاڑا بھی ہمیں نے
کچھ اپنے موافق یہ ستارہ بھی نہیں ہے
ہوتی تھی جسے دیکھ کے سرشار طبیعت
آنکھوں میں وہ سر سبز نظارہ بھی نہیں ہے
یہ بات الگ جیت کے آثار نہیں ہیں
اس معرکۂ جاں کو وہ ہارا بھی نہیں ہے
ہر کوئی سلیمؔ اس کا مخالف ہے جہاں میں
اور کوئی خلاف اس کے صف آرا بھی نہیں ہے
غزل
ہر چند ترے غم کا سہارا بھی نہیں ہے
سلیم فراز