ہر چند مرا شوق سفر یوں نہ رہے گا
کیا خار سر راہ گزر یوں نہ رہے گا
ممکن ہے تری یاد سلگتی رہے تا عمر
یہ شعلہ شرر بار مگر یوں نہ رہے گا
اس دھوپ میں میری بھی جھلس جائیں گی آنکھیں
تیرا بھی رخ غنچۂ تر یوں نہ رہے گا
موقعہ ہے گل و برگ سجا لو سر مژگاں
ہر فصل میں سر سبز شجر یوں نہ رہے گا
کچھ شعر رقم کرتے چلو لوح جنوں پر
ہر دور میں یہ کار ہنر یوں نہ رہے گا
کچھ لوگ مرے بعد بھی رہ جائیں گے لیکن
صحرا میں کوئی خاک بہ سر یوں نہ رہے گا
خوش آئے سلیمؔ آج اسے میری اسیری
کل تک مگر افسوں کا اثر یوں نہ رہے گا
غزل
ہر چند مرا شوق سفر یوں نہ رہے گا
سلیم فراز