EN हिंदी
ہر چند دکھ دہی سے زمانے کو عشق ہے | شیح شیری
har-chand dukh-dahi se zamane ko ishq hai

غزل

ہر چند دکھ دہی سے زمانے کو عشق ہے

قائم چاندپوری

;

ہر چند دکھ دہی سے زمانے کو عشق ہے
لیکن مرے بھی تاب کے لانے کو عشق ہے

آشفتہ سر ہیں یاں دل صد چاک بھی کئی
تنہا نہ تیری زلف سے شانے کو عشق ہے

افلاک بیٹھے جائیں تھے جس بوجھ کے تلے
آدم کے ویسے بار اٹھانے کو عشق ہے

وحشت کو اپنی شہر و بیاباں میں جا نہیں
عاقل کو اب دعا و دوانے کو عشق ہے

یارب بن آئی آدمی مر جائے پر نہ ہو
وہ رنج بد بلا جو کہانے کو عشق ہے

دل کو چھٹا وہیں سے پھنسایا تو زلف میں
اے عشق تیرے بات بڑھانے کو عشق ہے

قائمؔ ہوس سے گو کہ کہی سب نے یہ غزل
لیکن ترے ردیف بٹھانے کو عشق ہے