ہر بے خطا ہے آج خطا کار دیکھنا
سچائیوں پہ جھوٹ کی یلغار دیکھنا
تقدیر بن نہ جائے شب تار دیکھنا
بجھنے کو ہے چراغ سر دار دیکھنا
مقتول کی جبیں پہ ہے قاتل لکھا ہوا
کیا فیصلہ ہو کل سر دربار دیکھنا
ہوگا بہت شدید تمازت کا انتقام
سائے سے مل کے روئے گی دیوار دیکھنا
ان پتھروں کے سائے میں رکنا فضول ہے
بے برگ و بے ثمر ہیں یہ کہسار دیکھنا
اس شہر آرزو کو نظر کس کی کھا گئی
مقتل بنے ہیں کوچہ و بازار دیکھنا
کچھ دن اگر یہ موسم وحشت اثر رہا
ہر آدمی کو بے در و دیوار دیکھنا
دیتا ہوں کیسے جان سر جادۂ وفا
مجھ کو نہ دیکھنا مرا پندار دیکھنا
خون جگر سے لکھتا ہوں ساغرؔ میں حرف حق
وقت آئے تو قلم کو بھی تلوار دیکھنا

غزل
ہر بے خطا ہے آج خطا کار دیکھنا
امتیاز ساغر