ہر بار نیا لے کے جو فتنہ نہیں آیا
اس عمر میں ایسا کوئی لمحہ نہیں آیا
ہوں گھر میں کہ احباب میں معتوب رہے ہم
کچھ ہم سے نہ آیا تو دکھاوا نہیں آیا
آلودہ کبھی گرد طلب سے نہ ہوئے ہم
ہونٹوں پہ کبھی حرف تمنا نہیں آیا
یہ بھی ہے کہ موزوں نہ تھی دنیا کی روش بھی
کچھ ہم سے بھی جینے کا سلیقہ نہیں آیا
چھوڑا تو نہ تھا ہم نے سوالوں کا کوئی حل
تھی جس کی توقع وہ نتیجہ نہیں آیا
نیلام نہ کر دی ہو کہیں پیاس کی غیرت
اس بار کوئی کوفے سے پیاسا نہیں آیا
اک شخص پہیلی کی طرح ساتھ تھا میرے
میں شہر سے نکلا تو اکیلا نہیں آیا
غزل
ہر بار نیا لے کے جو فتنہ نہیں آیا
نشتر خانقاہی