ہر بار ہوا ہے جو وہی تو نہیں ہوگا
ڈر جس کا ستاتا ہے ابھی تو نہیں ہوگا
دنیا کو چلو پرکھیں نئے دوست بنائیں
ہر شخص زمانے میں وہی تو نہیں ہوگا
وہ شخص بڑا ہے تو غلط ہو نہیں سکتا
دنیا کو بھروسہ یہ ابھی تو نہیں ہوگا
ہے اس کا اشارہ بھی سمجھنے کی ضرورت
ہوگا تو کبھی ہوگا ابھی تو نہیں ہوگا
دو چار گڑے مردے اکھاڑیں گے کسی روز
ہر بار نیا جھگڑا کبھی تو نہیں ہوگا
کچھ اور بھی ہو سکتا ہے تقریر کا مطلب
جو آپ نے سمجھا ہے وہی تو نہیں ہوگا
ہر بار زمانے کا ستم ہوگا مجھی پر
ہاں میں ہی بدل جاؤں کبھی تو نہیں ہوگا
غزل
ہر بار ہوا ہے جو وہی تو نہیں ہوگا
آلوک شریواستو