ہر آرزو میں رنگ ہے باغ و بہار کا
کانٹا بھی ایک پھول ہے اس خار زار کا
کچھ اس طرح سے آؤ کہ دل کو خبر نہ ہو
کچھ وصل میں بھی لطف رہے انتظار کا
بوئے وفا نہ ڈھونڈھئے لالہ کے داغ میں
کیا یہ بھی کوئی دل ہے کسی دل فگار کا
لغزش ہوئی تو پاؤں پہ ساقی کے گر پڑے
بے ہوشیوں سے کام لیا ہوشیار کا
سر چشمۂ سراب فریب مجاز ہے
کیا اعتبار زندگئ مستعار کا
عرفاں کی روشنی سے کدورت چلی گئی
آئینہ بن گیا مرے مشت غبار کا
دور شباب کی وہ ترنگیں کہاں گئیں
خمیازہ دیکھتا ہے یہ کیفیؔ خمار کا
غزل
ہر آرزو میں رنگ ہے باغ و بہار کا
چندر بھان کیفی دہلوی