EN हिंदी
ہر آنکھ لہو ساگر ہے میاں ہر دل پتھر سناٹا ہے | شیح شیری
har aankh lahu sagar hai miyan har dil patthar sannaTa hai

غزل

ہر آنکھ لہو ساگر ہے میاں ہر دل پتھر سناٹا ہے

عزیز قیسی

;

ہر آنکھ لہو ساگر ہے میاں ہر دل پتھر سناٹا ہے
یہ گنگا کس نے پاٹی ہے یہ پربت کس نے کاٹا ہے

چاہت نفرت دنیا عقبیٰ یہ خیر خرابی درد دوا
ہر دھندا جی کا جوکھم ہے ہر سودا جان کا گھاٹا ہے

کیا جوگ سمادھی و رسدھی کیا کشف و کرامت جذب و جنوں
سب آگ ہوا پانی مٹی سب دال نمک اور آٹا ہے

یہ راس رنگ یہ میل ملن اک ہاتھ میں چاند اک میں سورج
اک رات کا موج مزہ سارا اک دن کا سیر سپاٹا ہے

گھٹ گھاٹ اندھیرا ہے کیسے باندھوگے کہاں نیا اپنی
آواز کسے دو گے قیسیؔ چودھام یہاں سناٹا ہے