EN हिंदी
ہر آن جلوہ نئی آن سے ہے آنے کا | شیح شیری
har aan jalwa nai aan se hai aane ka

غزل

ہر آن جلوہ نئی آن سے ہے آنے کا

عبدالرحمان احسان دہلوی

;

ہر آن جلوہ نئی آن سے ہے آنے کا
چلن یہ چلتے ہو عاشق کی جان جانے کا

قسم قدم کی ترے جب تلک ہے دم میں دم
میں پاؤں پر سے ترے سر نہیں اٹھانے کا

ہماری جان پہ گرتی ہے برق غم ظالم
تجھے تو سہل سا ہے شغل مسکرانے کا

قسم خدا کی میں کچھ کھا کے سو رہوں گا صنم
جو ساتھ اپنے نہیں مجھ کو تو سلانے کا

نصیب اس کے شراب بہشت ہووے مدام
ہوا ہے جو کوئی موجد شراب خانے کا

بہت سے خون خرابے مچیں گے خانہ خراب
یہی ہے رنگ اگر تیرے پان کھانے کا

ہماری چھاتی پہ پھرتا ہے سانپ یاں احساںؔ
وہاں ہے شغل اسے زلف کے بنانے کا