ہر آئنے میں ترا ہی دھواں دکھائی دیا
مرا وجود ہی مجھ کو کہاں دکھائی دیا
یہ کیسی دھوپ کے موسم میں گھر سے نکلا ہوں
کہ ہر پرندہ مجھے سائباں دکھائی دیا
میں اپنی لہر میں لپٹا ہوا سمندر ہوں
میں کیا کروں جو ترا بادباں دکھائی دیا
کہا ہی تھا کہ سلام اے امام عالی مقام
ہماری پیاس کو آب رواں دکھائی دیا
مری نظر تو خلاؤں نے باندھ رکھی تھی
مجھے زمیں سے کہاں آسماں دکھائی دیا
غزل
ہر آئنے میں ترا ہی دھواں دکھائی دیا
افضل گوہر راؤ