ہر آہ سرد عشق ہے ہر واہ عشق ہے
ہوتی ہے جو بھی جرات نگاہ عشق ہے
دربان بن کے سر کو جھکائے کھڑی ہے عقل
دربار دل کہ جس کا شہنشاہ عشق ہے
سن اے غرور حسن ترا تذکرہ ہے کیا
اسرار کائنات سے آگاہ عشق ہے
جبار بھی رحیم بھی قہار بھی وہی
سارے اسی کے نام ہیں اللہ عشق ہے
محنت کا پھل ہے صدقہ و خیرات کیوں کہیں
جینے کی ہم جو پاتے ہیں تنخواہ عشق ہے
چہرہ فقط پڑاؤ ہیں منزل نہیں تری
اے کاروان عشق تری راہ عشق ہے
ایسے ہیں ہم تو کوئی ہماری خطا نہیں
للہ عشق ہے ہمیں واللہ عشق ہے
ہوں وہ امیر امام کہ فرہاد و قیس ہوں
آؤ کہ ہر شہید کی درگاہ عشق ہے

غزل
ہر آہ سرد عشق ہے ہر واہ عشق ہے
امیر امام