EN हिंदी
ہر آدمی کو خواب دکھانا محال ہے | شیح شیری
har aadmi ko KHwab dikhana muhaal hai

غزل

ہر آدمی کو خواب دکھانا محال ہے

ظہیرؔ غازی پوری

;

ہر آدمی کو خواب دکھانا محال ہے
شعلوں میں جیسے پھول کھلانا محال ہے

کاغذ کی ناؤ بھی ہے کھلونے بھی ہیں بہت
بچپن سے پھر بھی ہاتھ ملانا محال ہے

انساں کی شکل ہی میں درندے بھی ہیں مگر
ہر عکس آئینے میں دکھانا محال ہے

مشکل نہیں اتارنا سورج کو تھال میں
لیکن چراغ اس سے جلانا محال ہے

اک بار خود جو لفظوں کے پنجرے میں آ گیا
اس طائر نوا کو اڑانا محال ہے

اپنے لہو کی بھینٹ چڑھانے کے بعد بھی
قدروں کی ہر فصیل تک آنا محال ہے

تا عمر اپنی فکر و ریاضت کے باوجود
خود کو کسی سزا سے بچانا محال ہے