EN हिंदी
ہر آدمی کہاں اوج کمال تک پہنچا | شیح شیری
har aadmi kahan auj-e-kamal tak pahuncha

غزل

ہر آدمی کہاں اوج کمال تک پہنچا

ظفر اقبال ظفر

;

ہر آدمی کہاں اوج کمال تک پہنچا
عروج حد سے بڑھا تو زوال تک پہنچا

خود اپنے آپ میں جھنجھلا کے رہ گیا آخر
مرا جواب جب اس کے سوال تک پہنچا

غبار کذب سے دھندلا رہا ہمیشہ جو
وہ آئنہ مرے کب خد و خال تک پہنچا

چلو نہ سر کو اٹھا کر غرور سے اپنا
گرا ہے جو بھی بلندی سے ڈھال تک پہنچا

جسے بھروسا نہیں تھا اڑان پر اپنی
وہی پرندہ شکاری کے جال تک پہنچا

طواف کرتے رہے سب ہی راستے میں مگر
ہر ایک شخص ہی گرد ملال تک پہنچا

مری نجات کا ہوگا ظفرؔ وسیلہ وہی
جو لفظ نعت کا میرے خیال تک پہنچا