حقیقتوں سے الجھتا رہا فسانہ مرا
گزر گیا ہے مجھے روند کے زمانہ مرا
سمندروں میں کبھی تشنگی کے صحرا میں
کہاں کہاں نہ پھرا لے کے آب و دانہ مرا
تمام شہر سے لڑتا رہا مری خاطر
مگر اسی نے کبھی حال دل سنا نہ مرا
جو کچھ دیا بھی تو محرومیوں کا زہر دیا
وہ سانپ بن کے چھپائے رہا خزانہ مرا
وہ اور لوگ تھے جو مانگ لے گئے سب کچھ
یہاں تو شرم تھی دست طلب اٹھا نہ مرا
مجھے تباہ کیا التفات نے اس کے
اسے بھی آ نہ سکا راس دوستانہ مرا
کسے قبول کریں اور کس کو ٹھکرائیں
انہیں سوالوں میں الجھا ہے تانا بانا مرا
غزل
حقیقتوں سے الجھتا رہا فسانہ مرا
شاہد ماہلی