حقیقتوں سے مگر منحرف رہا نہ گیا
سو شہر خواب سے اپنا بھی آب و دانہ گیا
حریف ذات عجب تھے کہ عمر بھر خود کو
برا سمجھتے رہے پر برا کہا نہ گیا
جو منتشر ہوں تو حیرت نہ کر کہ دریا میں
بھنور کے بعد کسی لہر میں بہا نہ گیا
عجیب لمس تھا اب کے جنوں کے ہاتھوں میں
قبائے رنگ میں خوشبو سے پھر رہا نہ گیا
ہوا مزاج ترے در بدر رہے تا عمر
کسی بھی دشت کسی شہر میں بسا نہ گیا
زمیں سے اڑ کے زمیں تک پہنچ گئی آخر
سرشت خاک سے افلاک میں رہا نہ گیا
غزل
حقیقتوں سے مگر منحرف رہا نہ گیا
مظفر ممتاز