حقیقتوں سے ہے دنیا کو احتراز بہت
کہ ہے مزاج زمانہ فسانہ ساز بہت
ترا غرور عبادت تجھے نہ لے ڈوبے
سنا ہے پڑھتا تھا ابلیس بھی نماز بہت
کوئی بھی فطرت یزداں کا رکھ سکا نہ بھرم
جو ناسزا تھے وہ کہلائے پاکباز بہت
یہ کہہ رہے تھے کل آوارگان کوچۂ یار
ادائیں آج بھی اس کی ہیں دل نواز بہت
انہیں شعور محبت نہیں خدا کی قسم
جو لوگ ہیں تری محفل میں سرفراز بہت
مری خوشی کا زمانہ ہوا کا جھونکا تھا
مرے غموں کی رہی زندگی دراز بہت
یہ حسن و عشق کا جوہر ہے اور کچھ بھی نہیں
وہ خود پسند بہت ہیں میں بے نیاز بہت
غزل
حقیقتوں سے ہے دنیا کو احتراز بہت
جوہر نظامی