حقیقتوں کو فسانہ نہیں بناتی میں
دیے جلا کے ندی میں نہیں بہاتی میں
وہ فاختہ کی علامت اگر سمجھ جاتا
تو اس کے سامنے تلوار کیوں اٹھاتی میں
جناب واقعی میں نے کہیں نہیں جانا
وگرنہ آپ کی گاڑی میں بیٹھ جاتی میں
پھر ایک دم مرے پیروں میں گر گئے کچھ لوگ
قریب تھا کہ کوئی فیصلہ سناتی میں
خدا کا شکر کہ وہ راستے سے لوٹ گیا
اگر وہ آتا تو اس کو کہاں بٹھاتی میں
کسی خیال میں ہاتھوں سے چھوٹ جاتے ہیں
یہ جان بوجھ کے برتن نہیں گراتی میں
وہ دل ہو یا مری گڑیا کی موت ہو جو ہو
ہمیشہ سوگ میں چولہا نہیں جلاتی میں
میں مانتی ہوں مرا فیصلہ غلط نکلا
تمہیں بتاؤ کہ پہلے کسے بچاتی میں
مرا بدن کسی تتلی سے کم نہیں زہرا
تو مر نہ جاتی اگر تیرے ہاتھ آتی میں
غزل
حقیقتوں کو فسانہ نہیں بناتی میں
زہرا قرار