حقیقتوں کا پتہ دے کے خود سراب ہوا
وہ مجھ کو ہوش میں لا کر خیال و خواب ہوا
وہ اپنے لمس سے پتھر بنا گیا مجھ کو
وصال اس کا مجھے صورت عذاب ہوا
سروں پہ سب کے پڑی حادثوں کی دھوپ مگر
کوئی سراب بنا اور کوئی سحاب ہوا
عذاب سب کے مرے جسم و جاں پہ نقش ہوئے
مرا وجود مرے عہد کی کتاب ہوا
سکوت شہر ستم سے اسیر یاس نہ ہو
کہ یاں سکوں سے ہوا جو بھی انقلاب ہوا
وہی تو ایک ہمارا مزاج داں تھا رضیؔ
جو ہم سے دور رہا اور نہ دستیاب ہوا
غزل
حقیقتوں کا پتہ دے کے خود سراب ہوا
رضی مجتبی