EN हिंदी
حق نوائی کو زمانے کی زباں کون کرے | شیح شیری
haq-nawai ko zamane ki zaban kaun kare

غزل

حق نوائی کو زمانے کی زباں کون کرے

صمد انصاری

;

حق نوائی کو زمانے کی زباں کون کرے
ایسی تلخی کو صمدؔ لذت جاں کون کرے

اب سر دار وفاؤں کے لیے کون آئے
چند خوابوں کے لیے ترک جہاں کون کرے

ہم نے مانا کہ بڑی چیز ہے پابندیٔ وقت
سجدۂ شوق کو پابند اذاں کون کرے

وقت کی چاپ سے گونجی ہے مری تنہائی
وقت کی چاپ کو اب اور گراں کون کرے

کون اونچی کرے بجھتے ہوئے انفاس کی لو
اس اندھیرے میں تلاش رگ جاں کون کرے

شعلۂ فکر پہ سورج کا گماں ہوتا ہے
شعلۂ فکر کو محتاج بیاں کون کرے

ہم وہ پتھر ہیں کہ صیقل ہو تو آئینہ بنیں
سنگ پر مشق فن شیشہ گراں کون کرے

کون دکھلائے حقیقت کو صمدؔ راہ‌ مجاز
حاصل دیدہ و دل نذر بتاں کون کرے