حق مجھے باطل آشنا نہ کرے
میں بتوں سے پھروں خدا نہ کرے
دوستی بد بلا ہے اس میں خدا
کسی دشمن کو مبتلا نہ کرے
ہے وہ مقتول کافر نعمت
اپنے قاتل کو جو دعا نہ کرے
رو مرے کو خدا قیامت تک
پشت پا سے تری جدا نہ کرے
ناصحو یہ بھی کچھ نصیحت ہے
کہ یقیںؔ یار سے وفا نہ کرے
غزل
حق مجھے باطل آشنا نہ کرے
انعام اللہ خاں یقینؔ