حق میری محبت کا ادا کیوں نہیں کرتے
تم درد تو دیتے ہو دوا کیوں نہیں کرتے
کیوں بیٹھے ہو خاموش سرہانے میرے آ کر
یارو مرے جینے کی دعا کیوں نہیں کرتے
پھولوں کی طرح جسم ہے پتھر کی طرح دل
جانے یہ حسیں لوگ وفا کیوں نہیں کرتے
ہر بات پرندوں کی طرح اڑتی ہوئی سی
جو بات بھی کرتے ہو سدا کیوں نہیں کرتے
لو دیکھو حمیدیؔ لب دریا پہ ہے دریا
پر پیاس ہے کب کی یہ پتا کیوں نہیں کرتے
غزل
حق میری محبت کا ادا کیوں نہیں کرتے
مجیب ظفر انوار حمیدی