EN हिंदी
ہنستی آنکھیں ہنستا چہرہ اک مجبور بہانہ ہے | شیح شیری
hansti aankhen hansta chehra ek majbur bahana hai

غزل

ہنستی آنکھیں ہنستا چہرہ اک مجبور بہانہ ہے

عندلیب شادانی

;

ہنستی آنکھیں ہنستا چہرہ اک مجبور بہانہ ہے
چاند میں سچ مچ نور کہاں ہے چاند تو اک ویرانہ ہے

ناز پرستش بن جائے گا صبر ذرا اے شورش دل
الفت کی دیوانہ گری سے حسن ابھی بیگانہ ہے

مجھ کو تنہا چھوڑنے والے تو نہ کہیں تنہا رہ جائے
جس پر تجھ کو ناز ہے اتنا اس کا نام زمانہ ہے

تم سے مجھ کو شکوہ کیوں ہو آخر باسی پھولوں کو
کون گلے کا ہار بنائے کون ایسا دیوانہ ہے

ایک نظر میں دنیا بھر سے ایک نظر میں کچھ بھی نہیں
چاہت میں انداز نظر ہی چاہت کا پیمانہ ہے

خود تم نے آغاز کیا تھا جس کا ایک تبسم سے
محرومی کے آنسو بن کر ختم پہ وہ افسانہ ہے

یوں ہے اس کی بزم طرب میں اک دل غم دیدہ جیسے
چاروں جانب رنگ محل ہیں بیچ میں اک ویرانہ ہے