ہنسو نہ تم رخ دشمن جو زرد ہے یارو
کسی کا درد ہو اپنا ہی درد ہے یارو
دلوں سے شکوۂ باہم کو دور کرنے میں
لگے گا وقت کہ برسوں کی گرد ہے یارو
ہم اہل شہر کی فطرت سے خوب واقف ہے
وہ اک غریب جو صحرا نورد ہے یارو
جہاں متاع ہنر کی خرید ہوتی تھی
بہت دنوں سے وہ بازار سرد ہے یارو
عجب نہیں کہ بیاباں کے ہونٹ تر ہو جائیں
فضا میں آج سمندر کی گرد ہے یارو
خطا کسی سے ہوئی ہو کوئی بھی مجرم ہو
جواب دہ تو یہاں فرد فرد ہے یارو
خیال سود نہ اندیشۂ زیاں کوئی
شمیمؔ بھی کوئی آزاد مرد ہے یارو

غزل
ہنسو نہ تم رخ دشمن جو زرد ہے یارو
شمیم کرہانی