ہنسی میں ٹال تو دیتا ہوں اکثر
مگر میں خوش نہیں برباد ہو کر
کوئی مرتا نہیں ضبط فغاں سے
ذرا سا داغ پڑ جاتا ہے دل پر
لکھی ہے ریگ ساحل پر جو میں نے
وہ چٹھی پڑھ نہیں سکتا سمندر
جہاں ہم ہیں وہاں سب دائرے ہیں
کسی کا کوئی مرکز ہے نہ محور
مجھے جانا ہے واپس بادلوں میں
نہیں ہونا مجھے قطرے سے گوہر
مجھے کچھ دیر رکنا چاہئے تھا
وہ شاید دیکھ ہی لیتا پلٹ کر
غزل
ہنسی میں ٹال تو دیتا ہوں اکثر
انجم خیالی