EN हिंदी
ہنسی میں ٹال رہے ہو تم اس کے رونے کو | شیح شیری
hansi mein Tal rahe ho tum uske rone ko

غزل

ہنسی میں ٹال رہے ہو تم اس کے رونے کو

محمد اعظم

;

ہنسی میں ٹال رہے ہو تم اس کے رونے کو
نہ دیکھتا ہو وہ ہونے سے پہلے ہونے کو

سلام بھوک کو ان کی کرو جنہوں نے کبھی
بچائے رکھا تھا تھوڑا اناج بونے کو

دئے گئے ہیں خزانے انہی کو عہد بہ عہد
رہا تھا کچھ بھی نہیں جن کے پاس کھونے کو

غلط نہیں کہ لگاتی ہیں پار موجیں بھی
جو جانتی ہیں فقط ڈوبنے ڈبونے کو

بکھرنا یہ ہے کہ مایوس لوٹ جاتی ہے
جو رات آتی ہے مجھ میں مجھے سمونے کو

جو آج دیکھو تو بیٹھے ہیں نیل کنٹھ بنے
گئے تھے ہم بھی سمندر کبھی بلونے کو

پتہ چلا کہ یہ آنکھیں ملی ہیں اس کے لئے
شب فراق کے گل رات بھر پرونے کو

کچھ آنسوؤں سے ہی نکلے تو نکلے کام کوئی
وہ داغ ہوں کہ سمندر بھی کم ہیں دھونے کو