ہنسی میں ساغر زریں کھنک کھنک جائے
شباب اس کی صدا کا چھلک چھلک جائے
دل و نظر میں بسی ہے وہ چاند سی صورت
وہ دل کشی ہے کہ بالک ہمک ہمک جائے
لباس میں ہے وہ طرز تپاک آرائش
جو انگ چاہے چھپانا جھلک جھلک جائے
قدم قدم تری رعنائیوں کے در وا ہوں
روش روش ترا آنچل ڈھلک ڈھلک جائے
نفس نفس ہو صبا کی طرح بہار انگیز
افق افق گل ہستی مہک مہک جائے
نشاط قرب کے لمحوں میں اس کی انگڑائی
ابھر کے خاک بدن سے دھنک دھنک جائے
بقا کے راز ہیں سب اس پہ منکشف اکبرؔ
وہ شاخ سبز ہوا سے لچک لچک جائے
غزل
ہنسی میں ساغر زریں کھنک کھنک جائے
اکبر حمیدی