EN हिंदी
ہنسی ہنسی میں ہر اک غم چھپانے آتے ہیں | شیح شیری
hansi hansi mein har ek gham chhupane aate hain

غزل

ہنسی ہنسی میں ہر اک غم چھپانے آتے ہیں

رئیس صدیقی

;

ہنسی ہنسی میں ہر اک غم چھپانے آتے ہیں
حسین شعر ہمیں بھی سنانے آتے ہیں

ہمارے دم سے ہی آباد ہیں گلی کوچے
چھتوں پہ ہم ہی کبوتر اڑانے آتے ہیں

دریچہ کھول دیا تھا ترے خیالوں کا
ہوا کے جھونکے ابھی تک سہانے آتے ہیں

وصال ہجر وفا فکر درد مجبوری
ذرا سی عمر میں کتنے زمانے آتے ہیں

حسین خوابوں سے ملنے کو پہلے سوتے تھے
کہ اب تو خواب بھی نیندیں اڑانے آتے ہیں

رئیسؔ کھڑکیاں ساری نہ کھولیے گھر کی
ہوا کے جھونکے دئیے بھی بجھانے آتے ہیں