ہنگامۂ ہستی سے گزر کیوں نہیں جاتے
رستے میں کھڑے ہو گئے گھر کیوں نہیں جاتے
مے خانے میں شکوہ ہے بہت تیرہ شبی کا
مے خانے میں با دیدۂ تر کیوں نہیں جاتے
اب جبہ و دستار کی وقعت نہیں باقی
رندوں میں بہ انداز دگر کیوں نہیں جاتے
جس شہر میں گمراہی عزیز دل و جاں ہو
اس شہر ملامت میں خضر کیوں نہیں جاتے
توشہ نہیں کوئی نسیم سحری کا
بے راحلہ و زاد سفر کیوں نہیں جاتے
شاید کہ شناسا ہو کوئی بے ہنری کا
کیوں ڈرتے ہو بازار ہنر کیوں نہیں جاتے
ہر لحظہ ہے جو سر کے لیے اک نئی ٹھوکر
اس ذلت ہر روز سے مر کیوں نہیں جاتے
ہم جس کے لیے زندہ ہیں با حال پریشاں
اب وہ بھی یہ کہتا ہے کہ مر کیوں نہیں جاتے
کیوں گوشۂ خلوت سے نکلتے نہیں اسلمؔ
بیٹھے ہیں جدھر لوگ ادھر کیوں نہیں جاتے
غزل
ہنگامۂ ہستی سے گزر کیوں نہیں جاتے
اسلم فرخی