ہم راہ مرے کوئی مسافر نہ چلا تھا
دھوکا مجھے خود اپنی ہی آہٹ سے ہوا تھا
مسدود ہوئی جس کی ہر اک راہ سراسر
اس صف میں مجھے لا کے کھڑا کس نے کیا تھا
جنبش ہی سے ہونٹوں کی جو کچھ سمجھو تو سمجھو
اس گنگ محل میں تو بس اتنا ہی روا تھا
تعمیر ہوئے گھر تو گئے جانے کہاں وہ
جن خانہ بدوشوں کا یہاں خیمہ لگا تھا
دھندلائے خد و خال گر اس کے تو عجب کیا
دیکھے ہوئے یوں بھی اسے یگ بیت گیا تھا
شب شعلہ بداماں تو سحر سوختہ ساماں
دو روپ بدلتا تھا عجب وہ بھی دیا تھا
غزل
ہم راہ مرے کوئی مسافر نہ چلا تھا
شبنم شکیل