حملہ آور کوئی عقب سے ہے
یہ تعاقب میں کون کب سے ہے
شہر میں خواب کا رواج نہیں
نیند کی ساز باز سب سے ہے
لوگ لمحوں میں زندہ رہتے ہیں
وقت اکیلا اسی سبب سے ہے
ہم خیالوں کے مشربوں کا زوال
خوف سے جبر سے طلب سے ہے
شعلہ باروں کے خاندان سے ہوں
روح میں روشنی نسب سے ہے
غزل
حملہ آور کوئی عقب سے ہے
ساقی فاروقی