EN हिंदी
ہمیں وفاؤں سے رہتے تھے بے یقین بہت | شیح شیری
hamin wafaon se rahte the be-yaqin bahut

غزل

ہمیں وفاؤں سے رہتے تھے بے یقین بہت

سراج فیصل خان

;

ہمیں وفاؤں سے رہتے تھے بے یقین بہت
دل و نگاہ میں آئے تھے مہہ جبین بہت

وہ ایک شخص جو دکھنے میں ٹھیک ٹھاک سا تھا
بچھڑ رہا تھا تو لگنے لگا حسین بہت

تو جا رہا تھا بچھڑ کے تو ہر قدم پہ ترے
پھسل رہی تھی مرے پاؤں سے زمین بہت

وہ جس میں بچھڑے ہوئے دل لپٹ کے روتے ہیں
میں دیکھتا ہوں کسی فلم کا وہ سین بہت

ترے خیال بھی دل سے نہیں گزرتے اب
اسی مزار پہ آتے تھے زائرین بہت

تڑپ تڑپ کے جہاں میں نے جان دی ہے سراجؔ
کھڑے ہوئے تھے وہیں پر تماشبین بہت