ہمیں تھے ایسے سرپھرے ہمیں تھے ایسے منچلے
کہ تیرے غم کی رات میں چراغ کی طرح جلے
ملے کوئی تو پھر مزے نہ زندگی کے پوچھئے
کٹے جو رات دیر میں تو مے کدے میں دن ڈھلے
کھلی ہوئی ہر اک کلی مہک رہی ہے شاخ پر
تو کچھ اداس پھول بھی پڑے ہیں شاخ کے تلے
اس انجمن کو کیا ہوا نہ روشنی نہ زندگی
چراغ و گل جلے بجھے دماغ و دل ملے دلے
یہ بات تلخ ہے مگر یہ بات گفتنی بھی ہے
کہ زاہدان خود نگر سے رند باصفا بھلے
غروب آفتاب پر ستارے مسکرائے ہیں
کہ اک دیا بجھا تو کیا ہزارہا دیے جلے
شمیمؔ منزل طلب قدم کو آ کے چوم لے
اگر قدم کو جوڑ کر تمام کارواں چلے

غزل
ہمیں تھے ایسے سرپھرے ہمیں تھے ایسے منچلے
شمیم کرہانی