EN हिंदी
ہمیں تھے ایسے سرپھرے ہمیں تھے ایسے منچلے | شیح شیری
hamin the aise sar-phire hamin the aise manchale

غزل

ہمیں تھے ایسے سرپھرے ہمیں تھے ایسے منچلے

شمیم کرہانی

;

ہمیں تھے ایسے سرپھرے ہمیں تھے ایسے منچلے
کہ تیرے غم کی رات میں چراغ کی طرح جلے

ملے کوئی تو پھر مزے نہ زندگی کے پوچھئے
کٹے جو رات دیر میں تو مے کدے میں دن ڈھلے

کھلی ہوئی ہر اک کلی مہک رہی ہے شاخ پر
تو کچھ اداس پھول بھی پڑے ہیں شاخ کے تلے

اس انجمن کو کیا ہوا نہ روشنی نہ زندگی
چراغ و گل جلے بجھے دماغ و دل ملے دلے

یہ بات تلخ ہے مگر یہ بات گفتنی بھی ہے
کہ زاہدان خود نگر سے رند باصفا بھلے

غروب آفتاب پر ستارے مسکرائے ہیں
کہ اک دیا بجھا تو کیا ہزارہا دیے جلے

شمیمؔ منزل طلب قدم کو آ کے چوم لے
اگر قدم کو جوڑ کر تمام کارواں چلے