ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی
یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی
مقابل صف اعدا جسے کیا آغاز
وہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی
کوئی مسیحا نہ ایفائے عہد کو پہنچا
بہت تلاش پس قتل عام ہوتی رہی
یہ برہمن کا کرم وہ عطائے شیخ حرم
کبھی حیات کبھی مے حرام ہوتی رہی
جو کچھ بھی بن نہ پڑا فیضؔ لٹ کے یاروں سے
تو رہزنوں سے دعا و سلام ہوتی رہی
غزل
ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی
فیض احمد فیض