ہمیں کو بھول گئے آپ کے بھی کیا کہنے
یقیں کو بھول گئے آپ کے بھی کیا کہنے
مرے خیال کو چوری کیا کیا سو کیا
زمیں کو بھول گئے آپ کے بھی کیا کہنے
مکاں بناتے رہے بام و در سجاتے رہے
مکیں کو بھول گئے آپ کے بھی کیا کہنے
اسیر عام سے چہرے کے ہو کے بیٹھے ہیں
حسیں کو بھول گئے آپ کے بھی کیا کہنے
بجا کہ ہاتھ کو تھاما بجا لیا بوسہ
جبیں کو بھول گئے آپ کے بھی کیا کہنے
تھا ذکر مجھ کو بھلانے کا ہاں ہی بول دیا
نہیں کو بھول گئے آپ کے بھی کیا کہنے

غزل
ہمیں کو بھول گئے آپ کے بھی کیا کہنے
ثروت مختار